Brands
Discover
Events
Newsletter
More

Follow Us

twitterfacebookinstagramyoutube
Youtstory

Brands

Resources

Stories

General

In-Depth

Announcement

Reports

News

Funding

Startup Sectors

Women in tech

Sportstech

Agritech

E-Commerce

Education

Lifestyle

Entertainment

Art & Culture

Travel & Leisure

Curtain Raiser

Wine and Food

YSTV

ADVERTISEMENT
Advertise with us

مشکل حالات نے سکھایاجینے کا سبق...ایک آٹو ڈرائیور کے لڑکے انصار شیخ کے آئی اے ایس بننے کی کہانی

 تجربات نے مجھے بہت مضبوط بنایا۔ ان واقيات نے مجھے بتایا کہ چاہے حالات جتنے نا مصائب کیوں نہ ہوں مجھے آگے بڑھنا ہے

مشکل حالات نے سکھایاجینے کا سبق...ایک آٹو ڈرائیور کے لڑکے انصار شیخ کے آئی اے ایس بننے کی کہانی

Saturday May 14, 2016 , 6 min Read


جالنہ ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے انصار احمد شیخ نے سول سروس کاامتحان میں کامیاب کر بتا دیا ہے ہے کہ اگر ارادے مضبوط ہوں اور محنت اور لگن کا جذبہ ہو تو حالات چاہے جتنے مخالف ہوں، کامیابی مل کر رہتی ہے۔ انصار کے والد آٹو ڈرائیور ہیں اور بھائی مکانک۔ 22 سال کی چھوٹی سی زندگی میں وہ کئی ایسے تجربات سے گزرے ہیں، جہاں سےکئی لوگ ہمت ہار کر لوٹ جاتے ہیں۔

image


انصار احمد شیخ آل انڈیا سول سروس میں 361 واں رینک حاصل کر چکے ہیں۔ مراٹھواڑا کے ایک پسماندہ ضلع جالنہ کے شلگاؤں میں سول سروس تک پہنچنے کی کہانی حیرت انگیز بھی ہے اورحوصلہ افزاء ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ مخالف ہواؤں میں مثبت سونچ سے حالات کو کس طرح موڑا جا سکتا ہے۔ انصار بتاتے ہیں، 

'' میرا تعلق ایک باالکل ہی غریب خاندان سے ہے، جہاں چھوٹی چھوٹی چیزیں خریدنے کے لئے بھی کئی بار سوچا جاتا ہے۔ ان حالات میں میں اپنی تعلیم آگے بڑھا رہا تھا۔ حکومت نے غریبوں کا اپنے پکے مکان بنانے کے لئے کچھ فنڈ منظور کئے تھے۔ ہمارے گھر کے لئے بھی 30 ہزار روپئے منظور کئے گئے تھے، لیکن 3000 روپے دینے کے لئے تحصیل آفیسر نے 3 ہزار روپے رشوت مانگی۔ اس وقت والد کے پاس کوئی چارا بھی نہیں تھا۔ انہوں نے 3 ہزار روپئے اسے دئے۔ جس گھر میں 2 رپيےكا قلم خریدنے کے لئے کئی بار سوچنا پڑتا ہے ایسے خاندان سے اس کے حق کے 3 ہزار روپئے لئے جاتے ہیں وہ کیا کر سکتا ہے، لیکن مجھے لگا کہ اس ناانصافی کا ختم کرنے کے لئے مجھے سسٹم کے اندر داخل ہونا ہوگا۔ اسی دن میں نے طے کیا کہ میں سول سروس کی تیاری کروں گا۔''
image


انصار نے جب طئے کیا کہ وہ سول سروس کا امتحان لکھیں گے۔ ان کے لئے حالات بننے لگے اور پھر ماں باپ، دوست، ٹیچر، این جی اوز اور کچھ سرکاری حکام نے بھی ان کی مدد کی۔ مقامی مسلم ستيہ شودھكک منڈل نے بھی ان کی مدد کی۔ وہ اپنے گاوں سے تو نکل گئے، لیکن اور کئی امتحان انہیں دینے تھے۔ شہر آنے کے بعد یہاں رہینا، کھانا بہت سارے مسائل تھے۔ ایک دو ہاسٹل میں تو انہیں مسلمان ہونے کی شناخت بھی چھپانی پڑی۔ ایک ہاسٹل میں کھانا کھانے کے لئَے انہیں اپنے دوست کا نام استعمال کرنا پڑا، لیکن ان سب باتوں کو انہوں نے کبھی بھی منفی انداز میں نہیں لیا۔ ہمیشہ اپنے ہدف پر نظر رکھے رہے۔ وہ کہتے ہیں،

'' پونے میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ایک دن جب میں ایک ہاسٹل میں شریک ہونا چاہا تو،انہوںے کہا کہ یہاں وجیٹرینس کے لئے داخلہ مل سکتا ہے۔ چوں کہ میں مسلمان تھا، اس لئَے وہاں داخلہ نہیں مل سکا۔ میں دوپہر کے کھانے کے لئَے ایک دوسرے ہاسٹل میں اپنے دوست شبھم کا نام استعمال کرنے پر اسی وجہ سے مجبور ہوا۔ لیکن میں نے اس کا کبھی برا نہیں مانا۔ مقصد کے سامنے یہ سب چھوٹی باتیں تھیں۔''
image


پونے میں رہنے کے لئے بہت ساری مشکلات رہی۔ انصار دیہی علاقے سے 21 سال کی عمرمیں 2012 میں پونے آئے تھے۔ ایک بہت ہی پسماندہ علاقے سے۔ نہ صرف علاقہ پسماندہ ، بلکہ ان کا اپنا خاندان بھی۔ لیکن انہوں نے زندگی سے ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کی عادت ڈالی۔ ایک ہی مقصد تھا، سول سروس امتحان پاس کرنا اور ایک دن اپنے مقصد کو حاصل کر ہی لیا۔ زندگی سے گھبرائے نہیں۔ پڑھنے پر پوری محنت لگا دی۔ دو ماہ بعد اسٹوڈنٹ ویلفیئر ہاسٹل میں میرٹ کی بنیاد پر داخلہ ملا۔ وہ کہتے ہیں،

'' اس طرح کے تجربات نے مجھے بہت مضبوط بنایا۔ ان واقيات نے مجھے بتایا کہ چاہے حالات جتنے نا مصائب کیوں ہوں مجھے آگے بڑھنا ہے۔''

اب جبکہ وہ امتحان میں کامیاب ہو گئَے ہیں، ٹریننگ کے بعد ان کی خواہش ہے کہ وہ موقع ملتا ہے تو دیہی علاقوں میں کام کریں۔ وہ کہتے ہیں،

'' میں دیہی علاقے میں جانا چاہوں گا۔ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں مراٹھواڈہ کوفوقیت دوںگا۔ میں دیکھوں گا کہ پینے کے پانی کے مسئلے کوحل کرنے کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔''

اپنے ساتھ پونے میں ہوئے امتیازی سلوک کی پروہ کئے بغیر وہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دلتوں اور پچھڑے طبقوں کے لئَے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انصار کہتے ہیں،'' بیوروکریٹ کے طور پر آئین میری رہنمائی کرے گا کہ میں کس طرح کام کروں، لیکن غریب لوگوں کے گھروں میں تعلیم اور صحت کے مسائل دور کرنے کے لئے میں کا م کرنا چاہتا ہوں۔ میں لوگوں کے پاس جاؤں گا۔ ان کے بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجنے کے لئے اپیل کروں گا، تعلیم ترقی میں کی کلیدی رول ادا کرتی ہے. ایس سی ایس ٹی کمیونٹیز کے لئے بھی یہ ضرور ہے۔ آپ کس فرقے سے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ضروری ہے کہ آپ خوب محنت کریں۔''

(تصوریں مختلف ذرایع سے لی گئ ہیں۔)

(تصوریں مختلف ذرایع سے لی گئ ہیں۔)


قابل ذکر ہے کہ انصار شیخ سول سروس 2015 امتحان کامیاب کرنے والے 1078 طلباء میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے پونے کی یونیک اکیڈمی میں اپنے امتحان کی تیاری کی۔ضلع پریشد کے مراٹھی میڈیم اسکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوںے نے فرگیوسن کالج پونے سے پولیٹکل سائس سے اپنی گریجویشن کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ جہاں انہوں نے سنسکرت میں 100 میں سے 100 نشان حاصل کرنے والے طالب علم رہے ہیں۔ غریبی کی حالت یہ تھی کہ کبھی بھی تو دو دو تین تین دن تک بھی بھوکا رہنا پڑا۔ ان کے بڑے بھائی نے آٹھویں میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر گروسری کی دکان پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔

FACE BOOK

کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔۔

ناخواندہ گھر میں پیدا ہونے والے شخص نے لکھی بغیر نقطے کی کتاب

ایک ڈرائیور کے انجینئر بیٹے عزیز الرحمن نے سنبھالا غریب بچوں کو مفت تعلیم دینے کا محاذ

ایک مکالمے نے بنا دی زندگی... حیدرآبادی اداکار اکبر بن تبر کی دلچسپ کہانی